اداریــــــــہ
مضراب
کثرت میں وحدت، وطن عزیز ہندستان کے امتیازات میں سے ایک نمایاں امتیاز رکھتی ہے۔یہی سبب ہے کہ یہاں کا مذہبی اور لسانی تنوع طویل عرصے سے ملک کی طاقت اور فخر کا باعث رہا ہے۔ اس سرزمین پر متعدد مذاہب پنپ رہے ہیں اور سیکڑوں زبانیں بولی جاتی رہی ہیں۔ تاہم اس بےنظیر تنوع کی زیریں لہروں میں ایک خاموش تقسیم بھی رہ رہ کر ابھر آتی ہے جو کبھی مذہب کے چولے میں تو کبھی زبان کے لبادے میں بڑی سرعت سے متنازعہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لسانی اور علاقائی عصبیت کی یہ لہر کسی زمانے میں مہاراشٹر سے اٹھی تھی جو گزرتے وقت کے ساتھ اب کرناٹک، تمل ناڈو، آسام اور بنگال جیسی ریاستوں کو بھی اپنے دائرے میں لے چکی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وطن عزیز ان دنوں جس شدید لسانی اور علاقائی عصبیت سے دوچار ہے، اتنا شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔
ہندستان کی مختلف زبانیں محض رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ تہذیبی و ثقافتی شناخت کی بنیاد بھی ہیں، جو صدیوں سے یہاں کے سماجی و معاشرتی تانے بانے سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ایسے میں جب ہم زبانوں کے نام پر لڑتے ہیں، تو ہم کیا واقعی اس لیے لڑتے ہیں کہ ہم لسانی طور پر برتر و افضل ہیں اور دوسری زبانیں کم تر ۔۔۔؟ برتری کی اس تصوراتی جنگ کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ 24 شیڈولڈ زبانوں اور سیکڑوں بولیوں کے باوجود ہندوستان کا لسانی منظرنامہ غیر معمولی طور پر ابر آلود اور پیچیدہ نظر آرہا ہے۔ آج زبان کے نام پر ہم جو جنگیں دیکھ رہے ہیں، وہ نئی نہیں ہیں بلکہ یہ ان سوالات کا عصری مظہر ہیں جس نے آزادی کے بعد سے ہی ہمیں پریشان کر رکھا ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک مربوط قوم کی تشکیل و تعمیر میں ہمارا کردار کیا ہونا چاہئے تاکہ ہم اپنی تکثیریت کا احترام کر سکیں۔اسی پر بس نہیں بلکہ برادران وطن میں ہم اس بات کو کیسے یقینی بنائیں کہ یہاں کی تہذیب، ثقافت اور تمدن سے پیوستہ ہمارا لسانی افتخار کوئی لسانی دکھاوا نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا انمول سرمایہ ہے۔
ہرچند کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سہ لسانی فارمولا کئی دہائیوں قبل متعارف ہونے کے باوصف متنازع بنا رہا ہے۔ زبانوں کے ذریعے آپسی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے جذبۂ صالح کے باوجود اسے مختلف خطوں اور ریاستوں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں اسے لسانی خودمختاری کے لئے ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کہنے کی اجازت ہو تو عرض کریں کہ زبان کی پالیسی کے حوالے سے ہمارے نقطۂ نظر میں ہمیشہ تضاد رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ علاقائی تعصب اور تنوع کو قربان کئے بغیر ہم یکجہتی اور قومی اتحاد بھی چاہتے ہیں۔ حالانکہ قومی اتحاد ہماری تہذیبی و ثقافتی روایات اور ہمارے نظریات کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔لیکن ان عظیم مقاصد کے حصول کے لئے کبھی تکلیف دہ سمجھوتوں اور بڑی قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے نہ ہم خود تیار ہیں اور نہ ملک کی دیگر کمیونٹیز کسی طور آمادہ۔ اسی لئے اکثر و بیشتر لسانی گفتگو تصادم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جو چیز کسی کی مادری زبان میں ایک معصوم فخر کے طور پر شروع ہوتی ہے، وہ جلد ہی زبان یار کے خلاف دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ حالانکہ ثقافتی تحفظ اور تمدنی جارحیت کے درمیان لسانی تعصبات کی لکیر بہت منحنی ہے، جسے ہم بہ آسانی عبور کرلیتے بلکہ اسکی حد سے کہیں زیادہ عبور کرجاتے ہیں، جتنا ہم تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ زبانیں معاشی ترقی اور روزگار کی راہیں ہموار کرتی ہیں جبکہ دوسری نہیں۔ایسے میں جب مادری زبان کی محدود مارکیٹ ویلیو ہو، تو ہمیں ثقافتی صداقت اور معاشی بقا کے درمیان ایک ناممکن انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کی ڈیجیٹل تبدیلی نے ان دیرینہ مسائل میں نئی پیچیدگی کا اضافہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری زبان کے تنازعات کی حرکیات کو بدل دیا ہے۔ یہ لسانی شکایات کو بڑھاتا ہے جبکہ بیک وقت نئی ڈیجیٹل درجہ بندی بناتا ہے جہاں کچھ زبانیں گفتگو پر حاوی ہوتی ہیں۔
ان حالات میں آگے کا راستہ متزلزل اورغیر یقینی ہے۔ لسانی تنوع کے لیے آئینی تحفظات کے باوجود، اس طرح کے متنوع ملک میں صحیح معنوں میں مساوی زبان کی پالیسیوں کے نفاذ کی عملی صورتیں بہت بڑے چیلنجز پیش کرتی ہیں اور یہ چیلنجز اس بنیادی سوال کی عکاسی کرتے ہیں جس کا جواب ہم برسوں سے دینے کی کوشش کر رہے ہیں: یکسانیت کے بغیر اتحاد کیسے بنایا جائے، ایک مشترکہ شناخت کیسے قایم ہو، جس کے لیے ثقافتی یکسانیت کی ضرورت نہ ہو۔ جب تک ہم اس معمہ کو حل نہیں کرلیتے تب تک زبان ہماری سب سے بڑی طاقت بنی رہے گی اور قوموں کے درمیان تقسیم کرنے والی ایک بڑی لکیر بھی رہے گی۔
بہرحال!’مژگاں‘ کا شمارہ نمبر 81حاضر۔اس شمارے سے مہمان کالم بعنوان ’آئینہ‘ کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔اپنی گراں قدر آرا ءسے نواز کر ہمیں شکریہ کا موقع دیں۔
(اعزازی مدیر)